پیدایش کی کتاب کے مقابلے میں جس میں یہ بیان ہے کہ کس طرح سے اسرائیل کی قوم کا ارتقا ہوتا ہے، خروج کی کتاب اسرائیلیوں میں خدا کی حضوری کا بیان کرتی ہے ۔یہ وہی الہٰی حضوری ہے جو اِس قوم کے وسیلے سے پوری دینا تک پہنچ رہی ہے۔اسطرح سے خروج کی کتاب کا حاصل کلام خیمہ اجتماع ' پِشکان' میں خدا کی حضوری اور خیمہ اجتماع میں اس وجہ سے کیونکہ ابھی تک بنئ اسرائیل یروشلیم نہیں پہنچے بلکہ وہ بیابانی سفر میں ہی تھے۔
سوال پیداہوتا ہے کہ اب اس سے آگے کس طرح سے بڑھا جائے ؟ اور ہمارے لیے یہاں چونکا دینے والی یہ بات ہے کہ جب ہم توریت شریف کو تاریخی طور پردیکھتے ہیں تو ہمیں دو کتُب ( احبار ، گنتی )ایک دوسرے کے متوازی ملتی ہیں۔ کیونکہ احبار کی کتاب میں قلمبند واقعات خیمہ اجتماع میں خدا کی حضوری کے فوراًٍٍ بعد کے ہیں اور یہ تمام کتاب میں وہ بیانا ت ہیں جب بنئ اسرائیل نے کوہِ سینہ کے پہلو میں اپنے ڈیرے لگائے۔ جبکہ گنتی کی کتاب میں بنئ اسرائیل کے بیابانی سفر کا تذکرہ ہے اور تاریخی طور پر یہ دونوں کتُب آپس میں متوازی حیثیت رکھتی ہیں۔
اِس بات کو ہم حقیقت میں کیسے سمجھ سکتے ہیں ؟ اس حصے کے آخر میں خیمہ اجتماع کے بارے میں تفصیل سے ذکر ہے جہاں لکھا ہے کہ بادل نے خیمہ اجتماع کے اُس حصے کو ڈھانکا ہوا تھا جہاں خدا کی حضوری تھی اور خداوند کے جلال سے خیمہ اجتماع اس قدر معمور تھا کہ حضرت موسیٰ بھی اُس میں داخل نہ ہو سکے۔ اور یہ صورتِ حال اُس بات کا اظہا ر کرتی ہے کہ، کہ خداوند کا جلال جو خیمہ کے اندر تھا وہ آگ ہے اور وہ بادل جس نے اُس خیمہ پر سایہ کیا ہوا تھا وہ پانی ہے۔
اس سے پچھلے پیراگراف میں جو آیت بیان کی گئی ہے وہ احبار کی کتاب کا تعارف ہے۔ جب خدا کی حضوری خیمہ اجتماع میں سکونت کرچکی تھی اُسکے بعد قدوس رب الافواج نے حضرت موسیٰ کو اندر بلایا اور قربانی کے قوانین عطا فرمائے۔ اور اِسکے فوراًٍ بعد بادل خیمہ اجتماع سے اُٹھ گیا اور انہوں نے اپنا سفر جاری رکھا۔ اور یہ آیت گنتی کی کتاب کا تعارف بیان کرتی ہے۔ اور جب تک بادل خیمہ اجتماع پر ٹھہرا رہتا تو وہ اُس وقت تک اپنے آگے روانہ نہیں ہوتے۔ سب اسرائیلیوں کے سامنے اُن کے تمام بیابانی سفر میں دن کے وقت خداوند کی حضوری خیمہ اجتماع پر بادل کی صورت میں رہتی اور رات کے وقت آگ کے ستون میں رہتی۔ 'سب اسرائیلیوں کے سامنے ' یہ الفاظ ہمیں توریت شریف کی آخری آیت یاد دہانی کرواتے ہیں کیونکہ وہاں بھی یہی بات مرقوم ہے ۔
احبار کی کتاب میں یہ بات قابلِ غور ہے کہ اُس کے آخر میں اس بات کا بھی ذکر ہے ” اُن کے سارے سفر میں “یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خیمہ اجتماع بیابان میں عارضی طور پر بنایا گیا تھا نہ کہ مستقل ۔ لہٰذا اُن کو ابھی بھی اپنا سفر جاری رکھنا تھا یہ بات حقیقت ہے کہ اُس بیابان میں خدا کی حضوری تھی مگر ابھی بھی اُس خیمہ کو اسرائیل کی مقدس سرزمین پر پہنچانا لازم تھا اور توریت شریف میں بھی ہمیں آگے کی کتابوں اسکا تسلسل ملتا ہے جیسا احبار، گنتی اور استثنا جب تک کہ وہ حالتِ سکونت اور اپنی خدا داد میراث پر نہیں پہنچ گئے۔